کرونا وائرس خواتین کیلئے نسبتا کم مہلک کیوں ہے؟

کرونا وائرس خواتین کیلئے نسبتا کم مہلک کیوں ہے؟

Read in English

جدید وائرس کے بارے میں آگاہی ہر کسی کیلئے ضروری ہے تا کہ پتہ چل سکے کہ ہم لوگ کس مسئلے سے دوچار ہیں۔ تاہم معلومات کے اس انبار سے بڑھتی ہوئی غلط فہمیوں سے چھٹکارا پانے کیلئے ان کے ذرائع کو ٹھیک سے پرکھنا بھی بے حد لازمی ہے۔ ایسی رپورٹس بھی شائع ہوئی ہیں جس سے پتہ چلا کہ یہ وائرس عورتوں کے بجائے مردوں کو ذیادہ متاثر کر رہا ہے۔ تاہم شفا فار یو کا ماننا ہے کہ مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس بیماری سے مکمل طور پر بچا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قسم کے مسئلے میں شفا فار یو کی آن لائن سروسز سے فائدہ اٹھائیں۔ 

چینی تحقیق:

چائینیز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے ماتحت کی جانے والی ایک سٹڈی نے 72 ہزار 314 مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ ان میں سے 44 ہزار 672 مریض کرونا وائرس پوزیٹو تھے، 16 ہزار 186 مریض مشتبہ تھے جبکہ 889 مریض ایسے تھے جو کہ کرونا وائرس کیریئرز تھے اور ان میں کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔ علامات والے مریضوں کو علامات کی شدت کی بنا پر مزید 3 گروہوں میں تقسیم کیا گیا جن میں معتدل، شدید اور انتہائی نازک صورتحال والے مریض شامل تھے۔ ان میں ذیادہ تر کیسز کی عمر 30 سے 69 سال کے درمیان تھی جن میں سے 81 فیصد افراد محض معمولی علامات ظاہر کر رہے تھے۔ تقریبا 5 فیصد افراد میں بہت ذیادہ شدید علامات جیسا کہ ریسپائیریٹری فیلیئر، سیپٹک شاک اور دوسرے آرگن کے فیلیئر کے ساتھ دیکھے گئے۔ اس سٹڈی کے مطابق شرح اموات مردوں کیلئے 2 اعشاریہ 8 جبکہ خواتین کیلئے 1 اعشاریہ 7 دیکھی گئی جبکہ اس کے برعکس متاثرہ افراد میں سے 22 ہزار 981 مرد اور 21 ہزار 691 خواتین تھیں۔ 

جنسی اتار چڑھاو کی وضاحت:

ڈاکٹر نتھالی میکڈرموٹ نے ماحولیاتی عناصر کو اس جنسی اتار چڑھاو کی وجہ قرار دیا چونکہ مردوں کی بہت سے معاملات میں لاپرواہی اس ذیادتی کا باعث ہے۔ محض چین میں ہی 52 فیصد سموکرز مرد ہیں جبکہ 3 فیصد خواتین سگریٹ نوشی میں ملوث ہیں۔ ان مشاہدات کو مدنظر رکھتے ہوئے اول الذکر ڈاکٹر نے بیان کیا کہ سموکنگ نہ صرف ہمارے پھیپھڑوں کو متاثر کر کے کووڈ 19 کے امکانات بڑھاتی ہے بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ کرنے کی اہل ہے۔ علاوہ ازیں حالیہ ڈیٹا کے مطابق بھی مرد حضرات شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی وجہ سے خواتین کے مقابلے میں کم صحت مند ہوتے ہیں اور ان کے نتیجے میں لقمہ اجل بننے والوں میں بھی مردوں کا تناسب ذیادہ ہے اور اس کی وجہ بھی ان کی صحت کے حوالے سے لاپرواہی ہے۔ 

تاہم اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک بایولاجیکل وضاحت بھی دی جا سکتی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق آٹو امیون امراض میں مبتلا افراد میں 80 فیصد خواتین ہیں اور امیون سسٹم کے اس تیز رفتار ریسپونس کو بھی اس بات کی وضاحت میں بتایا جاتا ہے کہ کیسے خواتین کا نظام مدافعت وائرس کو ذیادہ جلدی ختم کر سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق دیکھا گیا کہ خواتین کسی بھی جراثیم کے خلاف مردوں کے مقابلے میں ذیادہ اینٹی باڈیز بنا سکتی ہیں اور اسی لیے ان کا نظام مدافعت مردوں سے ذیادہ مظبوط ہوتا ہے مگر یہ فرق بہت ہی تھوڑا ہے۔ 

آوٹ لک: 

اوپر بتائی گئی معلومات سے ظاہر ہے کہ خواتین اپنے صحت مند اور بہتر طرز زندگی کی وجہ سے اس وائرس سے ذیادہ بہتر طریقے سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ ہماری روز مرہ کی عادات جیسا کہ شراب نوشی، سموکنگ اور بہت ذیادہ گوشت اور فیٹس کا استعمال انہی وجوہات میں ہے جو کہ مردوں کو کووڈ سے بہت بری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مرد ذیادہ تر خطرناک کاموں جیسا کہ کان کنی، ملٹری، کنسٹرکشن اور فائرفائٹنگ وغیرہ میں بھی مشغول رہتے ہیں جس سے ان کے آرگن ذیادہ متاثر ہوتے ہیں جس کے باعث وہ اس وائرس کا مقابلہ ذیادہ بہتر انداز میں نہیں کر پاتے ۔ 

بہرحال اہم بات یہ ہے کہ ان معمولی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے کووڈ 19 کو سنجیدگی سے دیکھا جائے تا کہ اس کو شکست دی جا سکے۔ سماجی فاصلے کو برقرار رکھیں اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ معمولی علامات ظاہر ہونے پر خود کو دوسروں سے علیحدہ کر لیں یا اپنا کووڈ ٹیسٹ کروائیں۔ ذیادہ تشویشناک علامات پر شفا فار یو سے اپنا ٹیسٹ لازمی کروائیں۔

Recommended Packages

Farah Jassawalla

Farah Jassawalla is a graduate of the Lahore School of Economics. She is also a writer, and healthcare enthusiast, having closely observed case studies while working with Lahore's thriving general physicians at their clinics.